EN हिंदी
کیا بری طرح بھوں مٹکتی ہے | شیح شیری
kya buri tarah bhaun maTakti hai

غزل

کیا بری طرح بھوں مٹکتی ہے

آبرو شاہ مبارک

;

کیا بری طرح بھوں مٹکتی ہے
کہ مرے دل میں آ کھٹکتی ہے

زلف کی شان مکھ اوپر دیکھو
کہ گویا عرش میں لٹکتی ہے

اب تلک گرچہ مر گیا فرہاد
روح پتھر سیں سر لٹکتی ہے

دل کبابوں میں کون کچا ہے
عشق کی آگ کیوں چٹکتی ہے

آبروؔ جا پہنچ کہ پیاسی زلف
ناگنی کی طرح بھٹکتی ہے