کیا بری طرح بھوں مٹکتی ہے
کہ مرے دل میں آ کھٹکتی ہے
زلف کی شان مکھ اوپر دیکھو
کہ گویا عرش میں لٹکتی ہے
اب تلک گرچہ مر گیا فرہاد
روح پتھر سیں سر لٹکتی ہے
دل کبابوں میں کون کچا ہے
عشق کی آگ کیوں چٹکتی ہے
آبروؔ جا پہنچ کہ پیاسی زلف
ناگنی کی طرح بھٹکتی ہے
غزل
کیا بری طرح بھوں مٹکتی ہے
آبرو شاہ مبارک