کیا بچھڑ کر رہ گیا جانے بھری برسات میں
ایک کوئل کوکتی ہے آم کے باغات میں
سوچ میں گم فاختہ بیٹھی ہوئی ہے شاخ پر
باز ہے اوپر تو نیچے اک شکاری گھات میں
وقت کے پنچھی کو اڑنا تھا بالآخر اڑ گیا
آڑی ترچھی کچھ لکیریں ہیں فقط اب ہاتھ میں
کوئی جیتا ہے جیے گر کوئی مرتا ہے مرے
آج کے انساں کو دلچسپی ہے اپنی ذات میں
اک تعلق اک محبت ہے مجھے اس شہر سے
میرے بچپن کا بڑا حصہ کٹا گجرات میں
جل رہی تھی رات میری تپ رہا تھا میرا دن
کیا جیے منظر کوئی ایسے کٹھن حالات میں
غزل
کیا بچھڑ کر رہ گیا جانے بھری برسات میں
بشیر منذر