کیا بتاؤں زندگی میں کس قدر تنہا رہا
قافلوں کے ساتھ رہ کر بھی سفر تنہا رہا
اب کسی سے دوستی ہوتی نہیں ہے اس لیے
دوستوں کو آزما کر وقت پر تنہا رہا
یا خدا پتھر بنا دل کے مرے احساس کو
آئنے کی شکل میں تو عمر بھر تنہا رہا
دو دلوں کے پیار کا انجام کچھ ایسا ہوا
ہار کر میں خوش رہا وہ جیت کر تنہا رہا
دیوؔ ان کے روٹھنے سے رات گزری اس طرح
نیند ان کو بھی نہ آئی میں اگر تنہا رہا
غزل
کیا بتاؤں زندگی میں کس قدر تنہا رہا
دویش دکشت