EN हिंदी
کیا بتائیں کہاں کہاں تھے پھول | شیح شیری
kya bataen kahan kahan the phul

غزل

کیا بتائیں کہاں کہاں تھے پھول

امین راحت چغتائی

;

کیا بتائیں کہاں کہاں تھے پھول
خاک اڑتی ہے اب جہاں تھے پھول

بھیگی بھیگی سی دیکھ کر کلیاں
مسکرائے جہاں جہاں تھے پھول

دل میں گلشن کھلا گئے کیا کیا
یوں تو دو دن کے میہماں تھے پھول

جب خزاں آئی جاں پہ کھیل گئے
محرم جہد بے کراں تھے پھول

جس نے توڑا اسی کو رنج ہوا
مثل پیمانۂ مغاں تھے پھول

دن کی ظلمت نصیب بستی میں
راہگیروں کی کہکشاں تھے پھول