EN हिंदी
کیا بتائیں غم فرقت میں کہاں سے گزرے | شیح شیری
kya bataen gham-e-furqat mein kahan se guzre

غزل

کیا بتائیں غم فرقت میں کہاں سے گزرے

ذاکر خان ذاکر

;

کیا بتائیں غم فرقت میں کہاں سے گزرے
موسم گل سے جو نکلے تو خزاں سے گزرے

دل سے آنکھوں سے مکینوں سے مکاں سے گزرے
درد پھر درد ہے جب چاہے جہاں سے گزرے

حسن کی شوخ سری کا یہی حاصل نکلا
آتش عشق بڑھی آہ و فغاں سے گزرے

رقص کرتے ہی رہے خواب دھنوں پر لیکن
سانس کے تار سبھی سوز نہاں سے گزرے

با وضو ہو کے مرا ذکر جو کرتے تھے کبھی
آج پلٹے ہیں زباں سے وہ بیاں سے گزرے

وہ محبت ہو کے ایثار و وفا ہو ذاکرؔ
عشق کے تیر شب و روز کماں سے گزرے