EN हिंदी
کیا بتائیں آپ سے کیا ہستیٔ انسان ہے | شیح شیری
kya bataen aap se kya hasti-e-insan hai

غزل

کیا بتائیں آپ سے کیا ہستیٔ انسان ہے

گیان چند

;

کیا بتائیں آپ سے کیا ہستیٔ انسان ہے
آدمی جذبات و احساسات کا طوفان ہے

اشتراکیت مرا دین اور مرا ایمان ہے
کاش موٹر لے سکوں میں یہ مرا ارمان ہے

آہ اس دانش کدے میں کس قدر ہے قحط حسن
جب سے آیا ہوں یہاں بزم نظر ویران ہے

یہ کتابیں ہر طرف ہوں یا بتان منتخب
برگزیدہ ہستیوں کا ایک ہی ارمان ہے

فکر کی دنیا میں کولمبس بنا پھرتا ہوں میں
علم کی پہنائی کا کتنا بڑا فیضان ہے

آج امریکہ میں کل لندن میں پرسوں روس میں
آدمی کی سربلندی کی یہی پہچان ہے

اس قدر کھائے ہیں یاروں کے بچھڑ جانے کے داغ
دل نہیں اب ایک خاکستر شدہ شمشان ہے

جیسے جیسے بڑھ رہا ہے میرا عہدہ دوستوں
ویسے ویسے روح میری اور بھی ویران ہے

لڑکھڑاتا ٹھوکریں کھاتا کدھر جاتا ہوں میں
ہے اندھیرا گھپ فضا اور دل مرا سنسان ہے