EN हिंदी
کیا بلا کا ہے نشہ عشق کے پیمانے میں | شیح شیری
kya bala ka hai nasha ishq ke paimane mein

غزل

کیا بلا کا ہے نشہ عشق کے پیمانے میں

سراج اورنگ آبادی

;

کیا بلا کا ہے نشہ عشق کے پیمانے میں
کوئی ہوشیار نہیں عقل کے کاشانے میں

ڈوب جاتا ہے مرا جی جو کہوں قصۂ درد
نیند آتی ہے مجھی کوں مرے افسانے میں

دل مرا زلف کی زنجیر سیں ہے بازی میں
اپنے اس کام کا کیا ہوش ہے دیوانے میں

کیا مزے کا ہے ترے سیب زنخداں کا خال
لذت میوۂ فردوس ہے اس دانے میں

اس ادب گاہ کوں توں مسجد جامع مت بوجھ
شیخ بے باک نہ جا گوشۂ مئے خانے میں

آنکھ اٹھاتے ہی مرے ہاتھ سیں مجھ کوں لے گئے
خوب استاد ہو تم جان کے لے جانے میں

خوش ہوں میں صحبت مجنوں سیں نہ لیو عقل کا نام
آشنائی کی کہاں باس ہے بیگانے میں

شعلہ ہے آب حیات دل مشتاق سراجؔ
اس سمندر سیں بڑا فرق ہے پروانے میں