EN हिंदी
کیا بات ہے کہ بات ہی دل کی ادا نہ ہو | شیح شیری
kya baat hai ki baat hi dil ki ada na ho

غزل

کیا بات ہے کہ بات ہی دل کی ادا نہ ہو

راج نرائن راز

;

کیا بات ہے کہ بات ہی دل کی ادا نہ ہو
مطلب کا میرے جیسے کوئی قافیا نہ ہو

گلدان میں سجا کے ہیں ہم لوگ کتنے خوش
وہ شاخ ایک پھول بھی جس پر نیا نہ ہو

ہر لمحہ وقت کا ہے بس اک غنچۂ بخیل
مٹھی جو اپنی بند کبھی کھولتا نہ ہو

اب لوگ اپنے آپ کو پہچانتے نہیں
پیش نگاہ جیسے کوئی آئینا نہ ہو

وحشی ہوا کی روح تھی دیوار و در میں رات
جنگل کی سمت کوئی دریچہ کھلا نہ ہو