کیا عجب فرط خوشی سے ہے جو گریاں آدمی
کثرت غم میں نظر آتا ہے خنداں آدمی
قطرۂ بے مایہ لیکن بحر نا پیدا کنار
ذرۂ ناچیز وسعت میں بیاباں آدمی
پر سکوں حالات میں خاموش ساحل کی طرح
شورش جذبات میں مانند طوفاں آدمی
اس کی وحشت کا مداوا کر نہیں سکتا کوئی
خود اگر چاہے تو بن سکتا ہے انساں آدمی
آدمیت اگلے وقتوں میں تھی اک انمول شے
آج کے حالات میں ہے جنس ارزاں آدمی
زندگی کی سخت راہوں کا سفر درپیش ہے
کارواں در کارواں ہے پا بجولاں آدمی
اپنے زخموں کا مداوا غیر ممکن تو نہیں
اے حزیںؔ سارے دکھوں کا خود ہے درماں آدمی
غزل
کیا عجب فرط خوشی سے ہے جو گریاں آدمی
جنید حزیں لاری