EN हिंदी
کیا ادا کیا ناز ہے کیا آن ہے | شیح شیری
kya ada kiya naz hai kya aan hai

غزل

کیا ادا کیا ناز ہے کیا آن ہے

نظیر اکبرآبادی

;

کیا ادا کیا ناز ہے کیا آن ہے
یاں پری کا حسن بھی حیران ہے

حور بھی دیکھے تو ہو جاوے فدا
آج اس عالم کا وہ انسان ہے

اس کے رنگ سبز کی ہے چیں میں دھوم
کیوں نہ ہو آخر کو ہندوستان ہے

جان و دل ہم نذر کو لائے ہیں آج
لیجئے یہ دل ہے اور یہ جان ہے

دل بھی ہے دل سے تصدق آپ پر
جان بھی جی جان سے قربان ہے

دل کہاں پہلو میں جو ہم دیں تمہیں
یہ تو گھر اک عمر سے ویران ہے

عقل و ہوش و صبر سب جاتے رہے
ہاں مگر اک آدھ موئی سی جان ہے

وہ بھی گر لینی ہوں تو لے جائیے
خیر یہ بھی آپ کا احسان ہے

آن کر مل تو نظیرؔ اپنے سے جان
اب وہ کوئی آن کا مہمان ہے