کیا ادا کیا ناز ہے کیا آن ہے
یاں پری کا حسن بھی حیران ہے
حور بھی دیکھے تو ہو جاوے فدا
آج اس عالم کا وہ انسان ہے
اس کے رنگ سبز کی ہے چیں میں دھوم
کیوں نہ ہو آخر کو ہندوستان ہے
جان و دل ہم نذر کو لائے ہیں آج
لیجئے یہ دل ہے اور یہ جان ہے
دل بھی ہے دل سے تصدق آپ پر
جان بھی جی جان سے قربان ہے
دل کہاں پہلو میں جو ہم دیں تمہیں
یہ تو گھر اک عمر سے ویران ہے
عقل و ہوش و صبر سب جاتے رہے
ہاں مگر اک آدھ موئی سی جان ہے
وہ بھی گر لینی ہوں تو لے جائیے
خیر یہ بھی آپ کا احسان ہے
آن کر مل تو نظیرؔ اپنے سے جان
اب وہ کوئی آن کا مہمان ہے

غزل
کیا ادا کیا ناز ہے کیا آن ہے
نظیر اکبرآبادی