کوزہ گر کے گھر امیدیں آئی ہیں
مٹی کے پتلے میں سانسیں آئی ہیں
گھبرا کر بستر سے اٹھ بیٹھا ہوں میں
نیند میں پھر خوابوں کی لاشیں آئی ہیں
کس نے دستک دی ہے میری پلکوں پر
آنکھوں کی دہلیز پہ یادیں آئی ہیں
خواب میں اس کو روتے دیکھ لیا تھا بس
من میں جانے کیا کیا باتیں آئی ہیں
آنکھیں سرخ دکھیں تو میں نے پوچھ لیا
اس کا وہی بہانہ آنکھیں آئی ہیں
اک تکیے پہ میں اور میری تنہائی
ایسی جانے کتنی راتیں آئی ہیں
رشتوں کا آئینہ کب کا ٹوٹ چکا
میتؔ کے حصے کیول کرچیں آئی ہیں
غزل
کوزہ گر کے گھر امیدیں آئی ہیں
امت شرما میت