کوفے کے قریب ہو گیا ہے
لاہور عجیب ہو گیا ہے
ہر دوست ہے میرے خوں کا پیاسا
ہر دوست رقیب ہو گیا ہے
ہر آنکھ کی ظلمتوں سے یاری
ہر ذہن مہیب ہو گیا ہے
کیا ہنستا ہنساتا شہر یارو
حاسد کا نصیب ہو گیا ہے
پھیلا تھا مسیح وقت بن کر
سمٹا تو صلیب ہو گیا ہے
کاغذ پہ اگل رہا ہے نفرت
کم ظرف ادیب ہو گیا ہے
اس شہر کے دل نہیں ہے زلفیؔ
یہ شہر غریب ہو گیا ہے
غزل
کوفے کے قریب ہو گیا ہے
سیف زلفی