کوچۂ یار میں کچھ دور چلے جاتے ہیں
ہم طبیعت سے ہیں مجبور چلے جاتے ہیں
ہم کہاں جاتے ہیں یہ بھی ہمیں معلوم نہیں
بادۂ عشق سے مخمور چلے جاتے ہیں
گرچہ آپس میں وہ اب رسم محبت نہ رہی
توڑ جوڑ ان کے بدستور چلے جاتے ہیں
بیٹھے بیٹھے جو دل اپنا کبھی گھبراتا ہے
سیر کرنے کو سر طور چلے جاتے ہیں
قیس و فرہاد کے مرنے کا زمانہ گزرا
آج تک عشق کے مذکور چلے جاتے ہیں
غزل
کوچۂ یار میں کچھ دور چلے جاتے ہیں
نوح ناروی