کوچۂ دلبر میں میں بلبل چمن میں مست ہے
ہر کوئی یاں اپنے اپنے پیرہن میں مست ہے
نشۂ دولت سے منعم پیرہن میں مست ہے
مرد مفلس حالت رنج و محن میں مست ہے
دور گردوں ہے خداوندا کہ یہ دور شراب
دیکھتا ہوں جس کو میں اس انجمن میں مست ہے
آج تک دیکھا نہیں ان آنکھوں نے روئے خمار
کون مجھ سا گنبد چرخ کہن میں مست ہے
گردش چشم غزالاں گردش ساغر ہے یاں
خوش رہیں اہل وطن دیوانہ پن میں مست ہے
ہے جو حیران صفائے رخ حلب میں آئینہ
بوئے زلف یار سے آہو ختن میں مست ہے
غافل و ہشیار ہیں اس چشم مے گوں کے خراب
زندہ زیر پیرہن مردہ کفن میں مست ہے
ایک ساغر دو جہاں کے غم کو کرنا ہے غلط
اے خوشا طالع جو شیخ و برہمن میں مست ہے
وحشت مجنوں و آتشؔ میں ہے بس اتنا ہی فرق
کوئی بن میں مست ہے کوئی وطن میں مست ہے
غزل
کوچۂ دلبر میں میں بلبل چمن میں مست ہے
حیدر علی آتش