کوئے رسوائی سے اٹھ کر دار تک تنہا گیا
مجھ سے جیتے جی نہ دامن خواب کا چھوڑا گیا
کیا بساط خار و خس تھی پھر بھی یوں شب بھر جلے
دوش پر باد سحر کے دور تک شعلا گیا
روح کا لمبا سفر ہے ایک بھی انساں کا قرب
میں چلا برسوں تو ان تک جسم کا سایا گیا
کس کو بے گرد مسافت شوق کی منزل ملی
نغمہ گر کی خلوتوں تک بارہا نغما گیا
کون مجھ کو ڈھونڈھتا تھا کچھ پتا چلتا نہیں
بزم خوباں میں ہزاروں بار میں آیا گیا
ہم وہ شاعر کہ سناتے ہیں سرود جاں حسنؔ
ایک بھی شعلہ نفس محفل میں گر دیکھا گیا
مل گئے جب نرمادیشور دشت غربت میں نعیمؔ
اک نیا رشتہ عظیم آباد سے جوڑا گیا
غزل
کوئے رسوائی سے اٹھ کر دار تک تنہا گیا
حسن نعیم