کوئے جاناں میں نہیں کوئی گزر کی صورت
دل اڑا پھرتا ہے ٹوٹے ہوئے پر کی صورت
ہم تو منزل کے طلب گار تھے لیکن منزل
آگے بڑھتی ہی گئی راہ گزر کی صورت
وہ رہیں سامنے میرے تو تسلی ورنہ
دل بھی کمبخت بھٹکتا ہے نظر کی صورت
روح افسردہ پریشان خیالات میں گم
ایسی پہلے کبھی دیکھی تھی بشر کی صورت
میری قسمت میں محبت نے یہی لکھا ہے
درد بھی دل میں رہے زخم جگر کی صورت
بیٹھ جائیں کسی گوشے میں سمٹ کر اے دوست
کون گردش میں رہے شمس و قمر کی صورت
وہ گئے گھر سے تو پھر ہم نے بھی گھر کو چھوڑا
ہم سے دیکھی گئی دیوار نہ در کی صورت
چند آنسو ہی مرے دل پہ فلکؔ گر جائیں
آتش غم سے سلگتا ہے شرر کی صورت
غزل
کوئے جاناں میں نہیں کوئی گزر کی صورت
ہیرا لال فلک دہلوی