کوئے جاناں میں ادا دیکھیے دیوانوں کی
دھجیاں بانٹتے پھرتے ہیں گریبانوں کی
خاک اڑتی ہے فضا میں یوں ہی پروانوں کی
کون لیتا ہے خبر سوختہ سامانوں کی
حسن کیا شے ہے فقط ذوق نظر کی تسکین
عشق کیا چیز ہے تخلیق ہے ارمانوں کی
آپ رخ سیل حوادث کا بدل دیتا ہے
آسماں دیکھ کے گردش مرے پیمانوں کی
عکس گلشن پہ بہاروں کا پڑا تھا لیکن
کھنچ گئی پھول پہ تصویر بیابانوں کی
آج ساحل پہ پہنچ کر ہی رہے گی کشتی
آج ٹکر ہے مرے عزم سے طوفانوں کی
حشر کے دن وہ خطا واروں پہ رحمت ہوگی
آنکھ کھل جائے گی جنت کے نگہبانوں کی
ابن آدم نے فلکؔ ہوش سنبھالا جس دم
سب سے پہلے رکھی بنیاد صنم خانوں کی
غزل
کوئے جاناں میں ادا دیکھیے دیوانوں کی
ہیرا لال فلک دہلوی