EN हिंदी
کشود کار کی خاطر خدا بدلتے رہے | شیح شیری
kushud-e-kar ki KHatir KHuda badalte rahe

غزل

کشود کار کی خاطر خدا بدلتے رہے

حنیف نجمی

;

کشود کار کی خاطر خدا بدلتے رہے
چراغ نذر تھے ہر آستاں پہ چلتے رہے

فقیر عشق ہیں اپنا کوئی ٹھکانا ہے کیا
ہوا میں اڑتے رہے پانیوں پر چلتے رہے

ہم اہل دل نے چھوا تک نہیں کبھی کوئی پھول
ہوا پرست مگر توڑتے مسلتے رہے

پھسل کے تم بھی عبث سن گئے ہمارے ساتھ
ہمیں تو یوں بھی پھسلنا تھا سو پھسلتے رہے

نہ اس کے لمس کی گرمی نہ اس کے قرب کی آنچ
تصور اس کا تھا ایسا کہ بس پگھلتے رہے

وہ اک جگہ نہ کہیں رہ سکا اور اس کے ساتھ
کرایہ دار تھے ہم بھی مکاں بدلتے رہے