کشود کار کی خاطر خدا بدلتے رہے
چراغ نذر تھے ہر آستاں پہ چلتے رہے
فقیر عشق ہیں اپنا کوئی ٹھکانا ہے کیا
ہوا میں اڑتے رہے پانیوں پر چلتے رہے
ہم اہل دل نے چھوا تک نہیں کبھی کوئی پھول
ہوا پرست مگر توڑتے مسلتے رہے
پھسل کے تم بھی عبث سن گئے ہمارے ساتھ
ہمیں تو یوں بھی پھسلنا تھا سو پھسلتے رہے
نہ اس کے لمس کی گرمی نہ اس کے قرب کی آنچ
تصور اس کا تھا ایسا کہ بس پگھلتے رہے
وہ اک جگہ نہ کہیں رہ سکا اور اس کے ساتھ
کرایہ دار تھے ہم بھی مکاں بدلتے رہے

غزل
کشود کار کی خاطر خدا بدلتے رہے
حنیف نجمی