کن فیکوں کا حاصل یعنی مٹی آگ ہوا اور پانی
پل میں بقا کا پل میں فانی مٹی آگ ہوا اور پانی
نگری نگری پھرتی ہیں یہ دیواریں بھی ساتھ ہی میرے
کرتے ہیں میری نگرانی مٹی آگ ہوا اور پانی
خاک بسر ہوں شعلہ بجاں ہوں آہ کناں ہوں اشک فشاں ہوں
دیکھ تو اپنی کارستانی مٹی آگ ہوا اور پانی
میرا کیا ہے مر جاؤں گا چاروں اور بکھر جاؤں گا
آپ کہاں جائیں گے جانی مٹی آگ ہوا اور پانی
میں کبھی شعلہ ہوں کبھی شبنم گاہے زخم تو گاہے مرہم
کرتے ہیں مجھ میں کھینچا تانی مٹی آگ ہوا اور پانی
میں آئینہ دیکھ رہا ہوں لیکن یہ کیا دیکھ رہا ہے
میرا عکس پس حیرانی مٹی آگ ہوا اور پانی
عشق کی نسبت سے ہیں زندہ صحرا سورج بادل دریا
عشق نہیں تو سب بے معنی مٹی آگ ہوا اور پانی
غزل
کن فیکوں کا حاصل یعنی مٹی آگ ہوا اور پانی
احمد شہریار