کچھ زندگی میں لطف کا ساماں نہیں رہا
دل ایسا بجھ گیا کوئی ارماں نہیں رہا
وہ جوش بے خودی کا ہے عالم کہ آج کل
زنداں میں ہم نہیں ہیں کہ زنداں نہیں رہا
وہ دل ہی کیا خلش ہی نہ ہو جس میں درد کی
وہ گل ہی کیا جو زینت داماں نہیں رہا
ہر انقلاب وقت کے سانچے میں ڈھل گیا
مرکز پہ اپنے اب کوئی انساں نہیں رہا
ہر ایک اپنا خون پئے جا رہا ہے آج
انسان اس زمانے میں انساں نہیں رہا
ہوتی ہے اب ترنم دل کش پہ واہ واہ
بزم سخن میں کوئی سخنداں نہیں رہا
لایا ہے اس کو کھینچ کے شوق ادب یہاں
فیضیؔ کبھی بھی داد کا خواہاں نہیں رہا
غزل
کچھ زندگی میں لطف کا ساماں نہیں رہا
فیضی نظام پوری