کچھ زندگی میں عشق و وفا کا ہنر بھی رکھ
رشتہ خوشی سے جوڑ غم معتبر میں رکھ
شہروں میں زندگی کا سفر اب محال ہے
بہتر تو یہ ہے صحرا پہ اپنی نظر بھی رکھ
دنیا کے حادثات سے بھی رکھ تو واسطہ
حالات گھر کے کیسے ہیں اس کی خبر بھی رکھ
تلوار ہی سے فتح تو ملتی نہیں کبھی
نادان پہلے اپنی ہتھیلی پہ سر بھی رکھ
امید اس کے رحم و کرم کی بھی رکھ ضرور
دامن کو اپنے اشک ندامت سے تر بھی رکھ
گر زندگی میں چاہتا ہے سر بلندیاں
پہلے کسی فقیر کے قدموں پہ سر بھی رکھ
گر آرزو ہے تجھ کو ملے منزل حیات
اس آرزو میں خود کو تو محو سفر بھی رکھ
اس دل کشی میں چاند کی خود کو نہ بھول جا
اپنی نظر میں جلوۂ شق القمر بھی رکھ
شاہوں کے در پہ جانے سے میں روکتا نہیں
لیکن تو خانقاہوں میں اپنا گزر بھی رکھ
دانوں کے واسطے تو زمیں پر بھی آ عزیزؔ
ہر چند آسمانوں پہ تو اپنا گھر بھی رکھ

غزل
کچھ زندگی میں عشق و وفا کا ہنر بھی رکھ
عزیز انصاری