EN हिंदी
کچھ یقیں رہنے دیا کچھ واہمہ رہنے دیا | شیح شیری
kuchh yaqin rahne diya kuchh wahima rahne diya

غزل

کچھ یقیں رہنے دیا کچھ واہمہ رہنے دیا

زاہد آفاق

;

کچھ یقیں رہنے دیا کچھ واہمہ رہنے دیا
سوچ کی دیوار میں اک در کھلا رہنے دیا

کشتیاں ساری جلا ڈالیں انا کی جنگ میں
میں نے بھی کب واپسی کا راستہ رہنے دیا

میں نے ہر الزام اپنے سر لیا اس شہر میں
با وفا لوگوں میں خود کو بے وفا رہنے دیا

ایک نسبت ایک رشتہ ایک ہی گھر کے مکیں
وقت نے دونوں میں لیکن فاصلہ رہنے دیا

جاگتی آنکھوں میں کیسے خواب کی تعبیر تھی
عمر بھر جس نے کسی کو سوچتا رہنے دیا

ایک سائے کا تعاقب کر رہا ہوں آج تک
خود کو کیسی ابتلا میں مبتلا رہنے دیا

وہ مری راہوں میں دیواریں کھڑی کرتا رہا
میں نے ہونٹوں پر فقط حرف دعا رہنے دیا

پیار میں اب نفع و نقصان کا کیا سوچنا
کیا دیا اس کو اور اپنے پاس کیا رہنے دیا

اپنی کچھ باتیں در اظہار تک آنے نہ دیں
بند کمرے ہی میں دل کو چیختا رہنے دیا

پھر نہ دستک دے سکا آفاقؔ کوئی اس کے بعد
نام اس کا دل کی تختی پر لکھا رہنے دیا