EN हिंदी
کچھ اس نے سوچا تو تھا مگر کام کر دیا تھا | شیح شیری
kuchh usne socha to tha magar kaam kar diya tha

غزل

کچھ اس نے سوچا تو تھا مگر کام کر دیا تھا

ظفر اقبال

;

کچھ اس نے سوچا تو تھا مگر کام کر دیا تھا
جو میرے خوابوں کو اتنے رنگوں سے بھر دیا تھا

غبار میں بھیگ سی گئی تھی فضا کسی نے
رکی ہوئی رات کو وہ رنگ سحر دیا تھا

اسی کے اندر تھی ساری پیچیدگی کہ اس نے
کہاں کھڑا تھا میں اور اشارہ کدھر دیا تھا

چلو اس اثنا میں میری آنکھیں تو کھل گئی ہیں
کبھی جو اس نے مجھے فریب نظر دیا تھا

کسی بھی دن بیٹھ کر یہ دنیا حساب کر لے
کہ مجھ سے کتنا لیا ہے اور کس قدر دیا تھا

میں کر سکوں سب کے سامنے اپنی عیب جوئی
یہ دینے والے نے خاص مجھ کو ہنر دیا تھا

اسی میں تھا ڈوبنا ابھرنا مرا مقدر
لہو کے اندر مجھے اک ایسا بھنور دیا تھا

جو دھوپ کی آگ اس نے برسائی تھی زمیں پر
تو چھانو میں بیٹھنے کی خاطر شجر دیا تھا

یہ اس کی مرضی کہ لے لیا ہے اسی نے واپس
ظفرؔ مری شاعری کو جس نے اثر دیا تھا