کچھ تو تعلق کچھ تو لگاؤ
میرے دشمن ہی کہلاؤ
دل سا کھلونا ہاتھ آیا ہے
کھیلو توڑو جی بہلاؤ
کل اغیار میں بیٹھے تھے تم
ہاں ہاں کوئی بات بناؤ
کون ہے ہم سا چاہنے والا
اتنا بھی اب دل نہ دکھاؤ
حسن تھا جب مستور حیا میں
عشق تھا خون دل کا رچاؤ
حسن بنا جب بہتی گنگا
عشق ہوا کاغذ کی ناؤ
شب بھر کتنی راتیں گزریں
حضرت دل اب ہوش میں آؤ
غزل
کچھ تو تعلق کچھ تو لگاؤ
ابن صفی