کچھ تو سچائی کے شہکار نظر میں آتے
کاش ہم لوگ نہ خوابوں کے اثر میں آتے
ہم نے اس خوف سے خاکوں کو مکمل نہ کیا
شام کے رنگ بھی تصویر سحر میں آتے
جب کہ ہر روزن دیوار نمکداں ٹھہرا
کیسے مجروح اجالے مرے گھر میں آتے
سوئے پنگھٹ پہ جمی برف پگھل سکتی تھی
پیاسے سورج تو کبھی میرے نگر میں آتے
اجنبیت کے دریچوں میں کھلی تھیں آنکھیں
کس کے سائے مرے خوابوں کے کھنڈر میں آتے
غزل
کچھ تو سچائی کے شہکار نظر میں آتے
جمنا پرشاد راہیؔ