کچھ تو مشکل میں کام آتے ہیں
کچھ فقط مشکلیں بڑھاتے ہیں
اپنے احسان جو جتاتے ہیں
اپنا ہی مرتبہ گھٹاتے ہیں
صبر سے انتظار کرنا سیکھ
اچھے دن آتے آتے آتے ہیں
فاصلوں سے گریز کیا کرنا
فاصلے قربتیں بڑھاتے ہیں
کچھ تو بار نظر بھی ہوتے ہیں
سارے منظر کہاں لبھاتے ہیں
وہ جو رہتے ہیں بے حواس اکثر
حادثوں کو وہی بلاتے ہیں
کوئی استاد کیا سکھائے گا
جو سبق سانحے سکھاتے ہیں
جب وہ ملنے سے کچھ گریز کرے
واہمے دل میں کسمساتے ہیں
ساری یادیں تو خوش گوار نہیں
تلخ لمحے بھی یاد آتے ہیں
دل میں ہوتا ہے وجد کا عالم
تان وہ دل سے جب لگاتے ہیں
یاد اک ہیر کی ستاتی ہے
بانسری جب کبھی بجاتے ہیں
نغمے گاتے تھے جو مسرت کے
آج کل مرثیے سناتے ہیں
بات کی بات ہی اسے کہیے
قہقہے درد و غم مٹاتے ہیں
کم ہی اب رہ گئے ہیں جو راشدؔ
درد کی محفلیں سجاتے ہیں

غزل
کچھ تو مشکل میں کام آتے ہیں
ممتاز راشد