EN हिंदी
کچھ تو مجھے محبوب ترا غم بھی بہت ہے | شیح شیری
kuchh to mujhe mahbub tera gham bhi bahut hai

غزل

کچھ تو مجھے محبوب ترا غم بھی بہت ہے

فضل احمد کریم فضلی

;

کچھ تو مجھے محبوب ترا غم بھی بہت ہے
کچھ تیری توجہ کی نظر کم بھی بہت ہے

اشکوں سے بھی کھلتا ہے وہ دل جو ہے گرفتہ
کلیوں کے لیے قطرۂ شبنم بھی بہت ہے

ہم خود ہی نہیں چاہتے صیاد سے بچنا
سازش نگہ‌ و دل کی منظم بھی بہت ہے

ہے رشتۂ دزدیدہ نگاہی بھی عجب شے
قائم یہ ہوا پر بھی ہے محکم بھی بہت ہے

ڈھائے دل نازک پہ بہت اس نے ستم بھی
پھر لطف یہ ہے مجھ پہ وہ برہم بھی بہت ہے

یہ طرفہ تماشہ ہے کیا قتل بھی مجھ کو
اور پھر مرے مرنے کا انہیں غم بھی بہت ہے

پڑتے ہیں ستم گر کے ذرا وار بھی اوچھے
اور فضلیؔٔ بسمل میں ذرا دم بھی بہت ہے