کچھ تو مجھے محبوب ترا غم بھی بہت ہے
کچھ تیری توجہ کی نظر کم بھی بہت ہے
اشکوں سے بھی کھلتا ہے وہ دل جو ہے گرفتہ
کلیوں کے لیے قطرۂ شبنم بھی بہت ہے
ہم خود ہی نہیں چاہتے صیاد سے بچنا
سازش نگہ و دل کی منظم بھی بہت ہے
ہے رشتۂ دزدیدہ نگاہی بھی عجب شے
قائم یہ ہوا پر بھی ہے محکم بھی بہت ہے
ڈھائے دل نازک پہ بہت اس نے ستم بھی
پھر لطف یہ ہے مجھ پہ وہ برہم بھی بہت ہے
یہ طرفہ تماشہ ہے کیا قتل بھی مجھ کو
اور پھر مرے مرنے کا انہیں غم بھی بہت ہے
پڑتے ہیں ستم گر کے ذرا وار بھی اوچھے
اور فضلیؔٔ بسمل میں ذرا دم بھی بہت ہے
غزل
کچھ تو مجھے محبوب ترا غم بھی بہت ہے
فضل احمد کریم فضلی