کچھ تو محبتوں کی وفائیں نبھاؤں میں
شاداب بارشوں کی ہوائیں نبھاؤں میں
اتنے قریب آؤ بدن بھی سنائی دے
گزرے دنوں کی نرم صدائیں نبھاؤں میں
دل بھی تو چاہتا ہے کہ سبزہ کہیں کھلے
بنجر زمیں پہ کالی گھٹائیں نبھاؤں میں
دریا کی لہر پیاسے کناروں کو سونپ دوں
معصوم آرزو کی خطائیں نبھاؤں میں
شاداب ہو بھی سکتے ہیں چہرے نصیب کے
پھیلاؤں ہاتھ اور دعائیں نبھاؤں میں
رہ جائے کچھ تو جلتے بدن پر اسے رکھوں
ہر لمحہ خوشبوؤں کی قبائیں نبھاؤں میں
منظور ہو تمہیں تو محبت کے نام پر
معصوم خواہشوں کی سزائیں نبھاؤں میں
تا عمر زندگی کو نبھانا محال ہے
کچھ روز سادگی کی ادائیں نبھاؤں میں
کھولوں نہ روشنی کے دریچے نگاہ میں
اوشاؔ دلوں کی تیرہ فضائیں نبھاؤں میں
غزل
کچھ تو محبتوں کی وفائیں نبھاؤں میں
اوشا بھدوریہ