کچھ تو موقوف نگاہوں کی چمک پر ہوگا
ورنہ منظر تو سبھی کے لئے منظر ہوگا
کوئی مہمیز سی ٹھوکر ہے ضرورت میری
رہ کا پتھر تو بڑے کام کا پتھر ہوگا
ناتواں ایسے کہ جو شخص ہمیں قتل کرے
خون آلود نہ اس شخص کا خنجر ہوگا
کچھ تو کرنا ہے مجھے اپنی حفاظت کے لئے
ایک دن میری ہتھیلی پہ مرا سر ہوگا
غزل
کچھ تو موقوف نگاہوں کی چمک پر ہوگا
مختار جاوید