کچھ تو خودی کا رنگ ہے کچھ بے خودی کا رنگ
دونوں کا امتزاج ہے یہ زندگی کا رنگ
پیش نگاہ میرے ہزاروں ہی رنگ تھے
دل نے کیا پسند مگر آپ ہی کا رنگ
یہ ہے فریب چشم کہ یہ دل کا واہمہ
ہر گل میں دیکھتی ہوں گل کاغذی کا رنگ
اس کو بھلائے گرچہ زمانہ گزر گیا
آتا ہے یاد آج بھی مجھ کو اسی کا رنگ
رنگیں ہے جس کے دم سے مری کائنات دل
وہ ہے جمال یار کی تابندگی کا رنگ
آہیں بھرے گا کب کوئی پھولوں کو دیکھ کر
آئے گا کب کسی میں بھلا دلبری کا رنگ
اس میں ہے رنگ تیرے رخ بے مثال کا
سب سے جدا ہو کیوں نہ مری شاعری کا رنگ

غزل
کچھ تو خودی کا رنگ ہے کچھ بے خودی کا رنگ
مینو بخشی