کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
دن گزر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے
رہ گئے گاہ تبسم پہ گہے بات ہی پر
بارے اے ہم نشیں اوقات چلی جاتی ہے
ٹک تو وقفہ بھی کر اے گردش دوراں کہ یہ جان
عمر کے حیف ہی کیا سات چلی جاتی ہے
یاں تو آتی نہیں شطرنج زمانہ کی چال
اور واں بازی ہوئی مات چلی جاتی ہے
روز آنے پہ نہیں نسبت عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
شیخ بے نفس کو نزلہ نہیں ہے ناک کی راہ
یہ ہے جریان منی دھات چلی جاتی ہے
خرقہ مندیل و ردا مست لیے جاتے ہیں
شیخ کی ساری کرامات چلی جاتی ہے
ہے مؤذن جو بڑا مرغ مصلی اس کی
مستوں سے نوک ہی کی بات چلی جاتی ہے
پاؤں رکتا نہیں مسجد سے دم آخر بھی
مرنے پر آیا ہے پر لات چلی جاتی ہے
ایک ہم ہی سے تفاوت ہے سلوکوں میں میرؔ
یوں تو اوروں کی مدارات چلی جاتی ہے
غزل
کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
میر تقی میر