کچھ تو ہو کر دو بدو کچھ ڈرتے ڈرتے کہہ دیا
دل پہ جو گزرا تھا ہم نے آگے اس کے کہہ دیا
باتوں باتوں میں جو ہم نے درد دل کا بھی کہا
سن کے بولا تو نے یہ کیا بکتے بکتے کہہ دیا
اب کہیں کیا اس سے ہمدم دل لگاتے وقت آہ
تھا جو کچھ کہنا سو وہ تو ہم نے پہلے کہہ دیا
چاہ رکھتے تھے چھپائے ہم تو لیکن اس کا بھید
کچھ تو ہم نے سامنے اس ہم نشیں کے کہہ دیا
یہ ستم دیکھو ذرا منہ سے نکلتے ہی نظیرؔ
اس نے اس سے اس نے اس سے کہہ دیا

غزل
کچھ تو ہو کر دو بدو کچھ ڈرتے ڈرتے کہہ دیا
نظیر اکبرآبادی