کچھ تو ہیں پیکر پریشاں آذروں کے درمیاں
اور کچھ آزر پریشاں پتھروں کے درمیاں
سب خبر ہوتے ہوئے پیر مغاں ہے بے خبر
تشنگی کا غلغلہ ہے ساغروں کے درمیاں
بھیڑ کی بے چہرگی میں ہیں کئی چہرے نہاں
چند سر والے بھی ہیں ان بے سروں کے درمیاں
آؤ سب اک روز مل بیٹھیں یہ سوچیں کیوں ہوئی
اس قدر بے چارگی چارہ گروں کے درمیاں
حادثوں کے شہر میں اک حادثہ یہ بھی ہوا
ایک شیشہ آ گیا ہے پتھروں کے درمیاں
جائے حیرت اس نئی تہذیب میں موجود ہے
اک پرانا سا کھنڈر اونچے گھروں کے درمیاں
وہ تو بھاری پڑ گیا بیتابؔ اک بچھو کا ڈنک
عمر ورنہ کٹ چکی تھی اژدہوں کے درمیاں

غزل
کچھ تو ہیں پیکر پریشاں آذروں کے درمیاں
پرتپال سنگھ بیتاب