EN हिंदी
کچھ تو ہیں پیکر پریشاں آذروں کے درمیاں | شیح شیری
kuchh to hain paikar pareshan aazaron ke darmiyan

غزل

کچھ تو ہیں پیکر پریشاں آذروں کے درمیاں

پرتپال سنگھ بیتاب

;

کچھ تو ہیں پیکر پریشاں آذروں کے درمیاں
اور کچھ آزر پریشاں پتھروں کے درمیاں

سب خبر ہوتے ہوئے پیر مغاں ہے بے خبر
تشنگی کا غلغلہ ہے ساغروں کے درمیاں

بھیڑ کی بے چہرگی میں ہیں کئی چہرے نہاں
چند سر والے بھی ہیں ان بے سروں کے درمیاں

آؤ سب اک روز مل بیٹھیں یہ سوچیں کیوں ہوئی
اس قدر بے چارگی چارہ گروں کے درمیاں

حادثوں کے شہر میں اک حادثہ یہ بھی ہوا
ایک شیشہ آ گیا ہے پتھروں کے درمیاں

جائے حیرت اس نئی تہذیب میں موجود ہے
اک پرانا سا کھنڈر اونچے گھروں کے درمیاں

وہ تو بھاری پڑ گیا بیتابؔ اک بچھو کا ڈنک
عمر ورنہ کٹ چکی تھی اژدہوں کے درمیاں