کچھ تو اے یار علاج غم تنہائی ہو
بات اتنی بھی نہ بڑھ جائے کہ رسوائی ہو
ڈوبنے والے تو آنکھوں سے بھی کب نکلے ہیں
ڈوبنے کے لیے لازم نہیں گہرائی ہو
جس نے بھی مجھ کو تماشا سا بنا رکھا ہے
اب ضروری ہے وہی شخص تماشائی ہو
میں محبت میں لٹا بیٹھا ہوں دل کی دنیا
کام یہ ایسا بھی کب ہے کہ پذیرائی ہو
اجنبی تم سے کوئی بات جو کر لی میں نے
لوگ کہنے لگے ہرجائی ہو ہرجائی ہو
کوئی انجان نہ ہو شہر محبت کا مکیں
کاش ہر دل کی ہر اک دل سے شناسائی ہو
میں محبت کو چھپاتا رہا لیکن بے سود
بات چھپتی ہے کہاں جس میں کہ سچائی ہو
آج تو بزم میں ہر آنکھ تھی پر نم جیسے
داستاں میری کسی نے یہاں دہرائی ہو
میں تجھے جیت بھی تحفے میں نہیں دے سکتا
چاہتا یہ بھی نہیں ہوں تری پسپائی ہو
اب کے ساون تو برستا ہوا یوں لگتا ہے
آسماں پر بھی ترے غم کی گھٹا چھائی ہو
یوں گزر جاتا ہے عمرانؔ ترے کوچے سے
تیرا واقف نہ ہو جیسے کوئی سودائی ہو
غزل
کچھ تو اے یار علاج غم تنہائی ہو
عمران شناور