کچھ ترے ناز و ستم اور اٹھانا چاہے
دل مرا عقل سے پھر آنکھ چرانا چاہے
اپنے حالات کوئی مجھ کو سنانا چاہے
اور وہ اک بات جو مجھ سے ہی چھپانا چاہے
میری خواہش کہ تیری یاد سے غافل نہ رہوں
فکر دنیا تیری یادوں کو مٹانا چاہے
ذہن دنیا کی حقیقت کو سمجھنے پہ مصر
دل کہ بس خوابوں کی بستی میں ٹھکانا چاہے
میں اکیلا تو نہیں اس کی ادا کا محصور
کچھ سبب ہے کے اسے سارا زمانہ چاہے
جس کو دنیا سے ہے آشفتہ مزاجی کا گلہ
وہ بھی اس عالم فانی سے نہ جانا چاہے
ہم نے خالق کی رضا پر کہاں تولی ہر بات
بس وہی کرتے ہیں جو نفس کرانا چاہے
کون پہچانے ہے شاربؔ تجھے اس وادی میں
بن تعارف تو کوئی یاں سے نہ جانا چاہے
غزل
کچھ ترے ناز و ستم اور اٹھانا چاہے
سید اقبال رضوی شارب