کچھ تغیر مرے احوال پریشاں میں نہیں
ایسے عالم میں ہوں جو عالم امکاں میں نہیں
صبح محشر بھی دکھائی نہیں دیتی یا رب
روز بد بھی تو نصیب شب ہجراں میں نہیں
وحشت عشق کو ثابت قدمی بھی ہے ضرور
قیس کا نقش قدم تک تو بیاباں میں نہیں
ہو گیا ذوق فزائے خلش یاد مژہ
کون کہتا ہے کہ لذت ترے پیکاں میں نہیں
دشت وحشت میں اڑے پھرتے ہیں آرام سے ہم
جو صفت ضعف میں ہے تخت سلیماں میں نہیں

غزل
کچھ تغیر مرے احوال پریشاں میں نہیں
سالک دہلوی