کچھ سبب ہی نہ بنے بات بڑھا دینے کا
کھیل کھیلا ہوا یہ اس کو بھلا دینے کا
اپنے ہی سامنے دیوار بنا بیٹھا ہوں
ہے یہ انجام اسے رستے سے ہٹا دینے کا
یونہی چپ چاپ گزر جائیے ان گلیوں سے
یہاں کچھ اور ہی مطلب ہے صدا دینے کا
راستہ روکنا مقصد نہیں کچھ اور ہے یہ
درمیاں میں کوئی دیوار اٹھا دینے کا
آنے والوں کو طریقہ مجھے آتا ہے بہت
جانے والوں کے تعاقب میں لگا دینے کا
ایک مقصد تو ہوا ڈھونڈنا اس کو ہر سو
لطف ہی اور ہے پانے سے گنوا دینے کا
اک ہنر پاس تھا اپنے سو نہیں اب وہ بھی
جو دکھائی نہیں دیتا ہے دکھا دینے کا
سب کو معلوم ہے اور حوصلہ رکھتا ہوں ابھی
اپنے لکھے ہوئے کو خود ہی مٹا دینے کا
ٹوٹ پڑتی ہے قیامت کوئی پہلے ہی ظفرؔ
قصد کرتا ہوں جو فتنے کو جگا دینے کا
غزل
کچھ سبب ہی نہ بنے بات بڑھا دینے کا
ظفر اقبال