کچھ راز ہیں ایسے جو خبر تک نہیں پہنچے
ایسے بھی ہیں جلوے جو نظر تک نہیں پہنچے
اک لمحے کو آیا تھا سر بزم وہ خوش رو
جو گھر سے گئے دیکھنے گھر تک نہیں پہنچے
چھوٹے تھے جو قامت میں جنہیں جھک کے ملا تھا
ان ہاتھوں کے پتھر مرے سر تک نہیں پہنچے
اس گرد سے نکلو کہ سفر کا کرے آغاز
یارو تم ابھی راہ گزر تک نہیں پہنچے
ہر چند کہ در چھوڑ کے تیرا ہوئے رسوا
لیکن کبھی ہم غیر کے در تک نہیں پہنچے
کیا جانئے کن لوگوں کی قسمت میں ہوں عارفؔ
وہ پھل جو ابھی شاخ شجر تک نہیں پہنچے
غزل
کچھ راز ہیں ایسے جو خبر تک نہیں پہنچے
منظور عارف