کچھ پرندوں کو تو بس دو چار دانے چاہئیں
کچھ کو لیکن آسمانوں کے خزانے چاہئیں
دوستوں کا کیا ہے وہ تو یوں بھی مل جاتے ہیں مفت
روز اک سچ بول کر دشمن کمانے چاہئیں
تم حقیقت کو لیے بیٹھے ہو تو بیٹھے رہو
یہ زمانہ ہے اسے ہر دن فسانے چاہئیں
روز ان آنکھوں کے سپنے ٹوٹ جاتے ہیں تو کیا
روز ان آنکھوں میں پھر سپنے سجانے چاہئیں
بارہا خوش ہو رہے ہیں کیوں انہی باتوں پہ لوگ
بارہا جن پہ انہیں آنسو بہانے چاہئیں
غزل
کچھ پرندوں کو تو بس دو چار دانے چاہئیں
راجیش ریڈی