EN हिंदी
کچھ نیا کام نئے طور سے کرنے کے لیے | شیح شیری
kuchh naya kaam nae taur se karne ke liye

غزل

کچھ نیا کام نئے طور سے کرنے کے لیے

محسن آفتاب کیلاپوری

;

کچھ نیا کام نئے طور سے کرنے کے لیے
لوگ موقع ہی نہیں دیتے سدھرنے کے لیے

جاؤ جا کر کے غریبوں کے دلوں میں جھانکو
کتنی بے چین تمنائیں ہیں مرنے کے لیے

اس پہ مرتے ہو تو پھر دنیا کی پروا کیسی
عشق ہوتا ہے میاں حد سے گزرنے کے لیے

کوئی آسانی سے فن کار نہیں بنتا ہے
مدتیں چاہیے اک فن کو نکھرنے کے لیے

منہ اٹھا کر کے پھر آئی ہے یے توبہ توبہ
شب جدائی کی مرے گھر میں ٹھہرنے کے لیے

کسی دوشیزہ کی زلفیں یہ نہیں قسمت ہے
وقت لگتا ہے بہت اس کو سنورنے کے لیے

آج اس بات کا احساس ہوا ہے مجھ کو
خواب محسنؔ تھے مرے صرف بکھرنے کے لیے