کچھ نیا کام نئے طور سے کرنے کے لیے
لوگ موقع ہی نہیں دیتے سدھرنے کے لیے
جاؤ جا کر کے غریبوں کے دلوں میں جھانکو
کتنی بے چین تمنائیں ہیں مرنے کے لیے
اس پہ مرتے ہو تو پھر دنیا کی پروا کیسی
عشق ہوتا ہے میاں حد سے گزرنے کے لیے
کوئی آسانی سے فن کار نہیں بنتا ہے
مدتیں چاہیے اک فن کو نکھرنے کے لیے
منہ اٹھا کر کے پھر آئی ہے یے توبہ توبہ
شب جدائی کی مرے گھر میں ٹھہرنے کے لیے
کسی دوشیزہ کی زلفیں یہ نہیں قسمت ہے
وقت لگتا ہے بہت اس کو سنورنے کے لیے
آج اس بات کا احساس ہوا ہے مجھ کو
خواب محسنؔ تھے مرے صرف بکھرنے کے لیے
غزل
کچھ نیا کام نئے طور سے کرنے کے لیے
محسن آفتاب کیلاپوری