کچھ نہیں ہوتا شب بھر سوچوں کا سرمایا ہوتا ہے
ہم نے صحن کے اک کونے میں دیا جلایا ہوتا ہے
شام طرب کے لمحو اس کو مت آوازیں دیا کرو
رات نے اپنے سر پر غم کا بوجھ اٹھایا ہوتا ہے
جلتے ہیں تو پیڑ ہی جلتے ہیں سورج کی حدت سے
پھولوں پر تو پتوں کی ٹھنڈک کا سایا ہوتا ہے
میں نے آج تلک نہ دیکھا پو پھٹنے کا منظر تک
جب بھی سو کر اٹھتا ہوں تو بادل چھایا ہوتا ہے
کس نے کہا ہے دیواروں پر سایہ کرتا ہے سورج
دیواروں پر دیواروں کا اپنا سایا ہوتا ہے
ان لوگوں سے پوچھے کوئی شعر کا رتبہ اور شعور
جن لوگوں نے غزل کو اپنا خون پلایا ہوتا ہے
شہر کے لوگ بھی شہر کے ہنگاموں میں گم ہوتے ہی ادیمؔ
بستی والوں نے بھی کوئی روگ لگایا ہوتا ہے

غزل
کچھ نہیں ہوتا شب بھر سوچوں کا سرمایا ہوتا ہے
ازرق ادیم