EN हिंदी
کچھ نہیں ہوتا شب بھر سوچوں کا سرمایا ہوتا ہے | شیح شیری
kuchh nahin hota shab bhar sochon ka sarmaya hota hai

غزل

کچھ نہیں ہوتا شب بھر سوچوں کا سرمایا ہوتا ہے

ازرق ادیم

;

کچھ نہیں ہوتا شب بھر سوچوں کا سرمایا ہوتا ہے
ہم نے صحن کے اک کونے میں دیا جلایا ہوتا ہے

شام طرب کے لمحو اس کو مت آوازیں دیا کرو
رات نے اپنے سر پر غم کا بوجھ اٹھایا ہوتا ہے

جلتے ہیں تو پیڑ ہی جلتے ہیں سورج کی حدت سے
پھولوں پر تو پتوں کی ٹھنڈک کا سایا ہوتا ہے

میں نے آج تلک نہ دیکھا پو پھٹنے کا منظر تک
جب بھی سو کر اٹھتا ہوں تو بادل چھایا ہوتا ہے

کس نے کہا ہے دیواروں پر سایہ کرتا ہے سورج
دیواروں پر دیواروں کا اپنا سایا ہوتا ہے

ان لوگوں سے پوچھے کوئی شعر کا رتبہ اور شعور
جن لوگوں نے غزل کو اپنا خون پلایا ہوتا ہے

شہر کے لوگ بھی شہر کے ہنگاموں میں گم ہوتے ہی ادیمؔ
بستی والوں نے بھی کوئی روگ لگایا ہوتا ہے