EN हिंदी
کچھ خاک سے ہے کام کچھ اس خاک داں سے ہے | شیح شیری
kuchh KHak se hai kaam kuchh is KHak-dan se hai

غزل

کچھ خاک سے ہے کام کچھ اس خاک داں سے ہے

ذوالفقار عادل

;

کچھ خاک سے ہے کام کچھ اس خاک داں سے ہے
جانا ہے دور اور گزرنا یہاں سے ہے

دل اپنی رائیگانی سے زندہ ہے اب تلک
آباد یہ جہاں بھی غبار جہاں سے ہے

بس خاک پڑ گئی ہے بدن پر زمین کی
ورنہ مشابہت تو مری آسماں سے ہے

دل بھی یہی ہے وقت بھی منظر بھی نیند بھی
جانا کہاں ہے خواب میں جانا کہاں سے ہے

اک داستاں قدیم ہے اک داستاں دراز
ہے شام جس کا نام وہ کس داستاں سے ہے

وابستہ میز پوش کے پھولوں کی زندگی
مہمان سے ہے میز سے ہے میزباں سے ہے