کچھ کم نہیں ہیں شمع سے دل کی لگن میں ہم
فانوس میں وہ جلتی ہے یاں پیرہن میں ہم
ہیں تفتہ جاں مفارقت گل بدن میں ہم
ایسا نہ ہو کہ آگ لگا دیں چمن میں ہم
گم ہوں گے بوئے زلف شکن در شکن میں ہم
قبضہ کریں گے چین کو لے کر ختن میں ہم
گر یہ ہی چھیڑ دست جنوں کی رہی تو بس
مر کر بھی سینہ چاک کریں گے کفن میں ہم
محو خیال زلف بتاں عمر بھر رہے
مشہور کیوں نہ ہوں کہو دیوانہ پن میں ہم
ہوں گے عزیز خلق کی نظروں میں دیکھنا
گر کر بھی اپنے یار کے چاہ ذقن میں ہم
چھکے ہی چھوٹ جائیں گے غیروں کے دیکھنا
آ نکلے ہاں کبھی جو تری انجمن میں ہم
اے عندلیب دعوی بیہودہ پر کہیں
ایک آدھ گل کا منہ نہ مسل دیں چمن میں ہم
عاشق ہوئے ہیں پردہ نشیں پر بس اس لیے
رکھتے ہیں سوز عشق نہاں جان و تن میں ہم
ظالم کی سچ مثل ہے کہ رسی دراز ہے
مصداق اس کا پاتے ہیں چرخ کہن میں ہم
عنقا کا عیشؔ نام تو ہے گو نشاں نہیں
یاں وہ بھی کھو چکے ہیں تلاش دہن میں ہم
غزل
کچھ کم نہیں ہیں شمع سے دل کی لگن میں ہم
عیش دہلوی