کچھ اتنا خوف کا مارا ہوا بھی پیار نہ ہو
وہ اعتبار دلائے اور اعتبار نہ ہو
ہوا خلاف ہو موجوں پہ اختیار نہ ہو
یہ کیسی ضد ہے کہ دریا کسی سے پار نہ ہو
میں گاؤں لوٹ رہا ہوں بہت دنوں کے بعد
خدا کرے کہ اسے میرا انتظار نہ ہو
ذرا سی بات پہ گھٹ گھٹ کے صبح کر دینا
مری طرح بھی کوئی میرا غم گسار نہ ہو
دکھی سماج میں آنسو بھرے زمانے میں
اسے یہ کون بتائے کہ اشکبار نہ ہو
گناہ گاروں پہ انگلی اٹھائے دیتے ہو
وسیمؔ آج کہیں تم بھی سنگسار نہ ہو
غزل
کچھ اتنا خوف کا مارا ہوا بھی پیار نہ ہو
وسیم بریلوی