EN हिंदी
کچھ اتنا خوف کا مارا ہوا بھی پیار نہ ہو | شیح شیری
kuchh itna KHauf ka mara hua bhi pyar na ho

غزل

کچھ اتنا خوف کا مارا ہوا بھی پیار نہ ہو

وسیم بریلوی

;

کچھ اتنا خوف کا مارا ہوا بھی پیار نہ ہو
وہ اعتبار دلائے اور اعتبار نہ ہو

ہوا خلاف ہو موجوں پہ اختیار نہ ہو
یہ کیسی ضد ہے کہ دریا کسی سے پار نہ ہو

میں گاؤں لوٹ رہا ہوں بہت دنوں کے بعد
خدا کرے کہ اسے میرا انتظار نہ ہو

ذرا سی بات پہ گھٹ گھٹ کے صبح کر دینا
مری طرح بھی کوئی میرا غم گسار نہ ہو

دکھی سماج میں آنسو بھرے زمانے میں
اسے یہ کون بتائے کہ اشکبار نہ ہو

گناہ گاروں پہ انگلی اٹھائے دیتے ہو
وسیمؔ آج کہیں تم بھی سنگسار نہ ہو