EN हिंदी
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا | شیح شیری
kuchh ishq tha kuchh majburi thi so maine jiwan war diya

غزل

کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا

عبید اللہ علیم

;

کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا

اک سبز شاخ گلاب کی تھا اک دنیا اپنے خواب کی تھا
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس کے لیے سب کچھ ہار دیا

یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں
اے کاش کبھی تم جان سکو جو اس سکھ نے آزار دیا

میں کھلی ہوئی اک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا

وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی
اس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا

میں روتا ہوں اور آسمان سے تارے ٹوٹتے دیکھتا ہوں
ان لوگوں پر جن لوگوں نے مرے لوگوں کو آزار دیا

مرے بچوں کو اللہ رکھے ان تازہ ہوا کے جھونکوں نے
میں خشک پیڑ خزاں کا تھا مجھے کیسا برگ و بار دیا