EN हिंदी
کچھ اس طرح سے زمانے پہ چھانا چاہتا ہے | شیح شیری
kuchh is tarah se zamane pe chhana chahta hai

غزل

کچھ اس طرح سے زمانے پہ چھانا چاہتا ہے

ندیم فرخ

;

کچھ اس طرح سے زمانے پہ چھانا چاہتا ہے
وہ آفتاب پہ پہرے بٹھانا چاہتا ہے

تعلقات کے دھاگے تو کب کے ٹوٹ چکے
مگر یہ دل ہے کہ پھر آنا جانا چاہتا ہے

جو قطرہ قطرہ اکٹھا ہوا تھا آنکھوں میں
وہ خون اب مری پلکوں پہ آنا چاہتا ہے

چٹخ رہا ہے جو رہ رہ کے میرے سینے میں
وہ مجھ میں کون ہے جو ٹوٹ جانا چاہتا ہے

امیر شہر تری بندشیں معاذ اللہ
فقیر اب تری بستی سے جانا چاہتا ہے

یہ خواہشات کا پنچھی عجیب ہے ہر روز
نئی فضائیں نیا آب و دانا چاہتا ہے

اداسی جھانکنے لگتی ہے اس کی آنکھوں سے
وہ شخص جب بھی کبھی مسکرانا چاہتا ہے