کچھ اس طرح سے زمانے پہ چھانا چاہتا ہے
وہ آفتاب پہ پہرے بٹھانا چاہتا ہے
تعلقات کے دھاگے تو کب کے ٹوٹ چکے
مگر یہ دل ہے کہ پھر آنا جانا چاہتا ہے
جو قطرہ قطرہ اکٹھا ہوا تھا آنکھوں میں
وہ خون اب مری پلکوں پہ آنا چاہتا ہے
چٹخ رہا ہے جو رہ رہ کے میرے سینے میں
وہ مجھ میں کون ہے جو ٹوٹ جانا چاہتا ہے
امیر شہر تری بندشیں معاذ اللہ
فقیر اب تری بستی سے جانا چاہتا ہے
یہ خواہشات کا پنچھی عجیب ہے ہر روز
نئی فضائیں نیا آب و دانا چاہتا ہے
اداسی جھانکنے لگتی ہے اس کی آنکھوں سے
وہ شخص جب بھی کبھی مسکرانا چاہتا ہے
غزل
کچھ اس طرح سے زمانے پہ چھانا چاہتا ہے
ندیم فرخ