کچھ اس ادا سے سفیران نو بہار چلے
صلیب دوش پہ رکھ کر گناہ گار چلے
نکل کے کوئے محبت سے سوئے دار چلے
ہمارے ساتھ نہ کیوں موسم بہار چلے
تمہاری یاد سہی قربت بدن نہ سہی
کسی طرح تو محبت کا کاروبار چلے
ہمارے دم سے غم زندگی کی عظمت ہے
ہمارے ساتھ ستم ہائے روزگار چلے
اسی کا نام بہاراں ہے کچھ کہو یارو
چمن میں ہنستے ہوئے آئے سوگوار چلے
ہزار ہم پہ خرابی گزر گئی لیکن
لہو سے اپنے تری انجمن سنوار چلے
اک ایک سانس ہیں صدیوں کا درد شامل ہے
تمہاری بزم میں وہ زندگی گزار چلے

غزل
کچھ اس ادا سے سفیران نو بہار چلے
رمز عظیم آبادی