کچھ اس ادا سے محبت شناس ہونا ہے
خوشی کے باب میں مجھ کو اداس ہونا ہے
میں آج سوگ منانا سکھانے والا ہوں
ادھر کو آئیں جنہیں محو یاس ہونا ہے
نشست روح میں پاکیزگی ہے شرط مگر
بدن کی بزم میں بس خوش لباس ہونا ہے
میں خود ہی ہوتا ہوں اپنی نشاط کا باعث
سو مجھ کو خود مرے غم کی اساس ہونا ہے
ازل سے میری حفاظت کا فرض ہے ان پر
سبھی دکھوں کو میرے آس پاس ہونا ہے
یہ عاشقی ترے بس کی نہیں سو رہنے دے
کہ تیرا کام تو بس نا سپاس ہونا ہے
غزل
کچھ اس ادا سے محبت شناس ہونا ہے
راہل جھا