کچھ حقیقت تو ہوا کرتی تھی انسانوں میں
وہ بھی باقی نہیں اس دور کے انسانوں میں
وقت کا سیل بہا لے گیا سب کچھ ورنہ
پیار کے ڈھیر لگے تھے مرے گل دانوں میں
شاخ سے کٹنے کا غم ان کو بہت تھا لیکن
پھول مجبور تھے ہنستے رہے گل دانوں میں
ان کی پہچان کی قیمت تو ادا کرنی تھی
جانتا ہے کوئی اپنوں میں نہ بیگانوں میں
سر ہی ہم پھوڑنے جائیں تو کہاں جائیں گے
کھوکھلے کانچ کے بت ہیں ترے بت خانوں میں

غزل
کچھ حقیقت تو ہوا کرتی تھی انسانوں میں
سعید احمد اختر