EN हिंदी
کچھ حقیقت تو ہوا کرتی تھی انسانوں میں | شیح شیری
kuchh haqiqat to hua karti thi insanon mein

غزل

کچھ حقیقت تو ہوا کرتی تھی انسانوں میں

سعید احمد اختر

;

کچھ حقیقت تو ہوا کرتی تھی انسانوں میں
وہ بھی باقی نہیں اس دور کے انسانوں میں

وقت کا سیل بہا لے گیا سب کچھ ورنہ
پیار کے ڈھیر لگے تھے مرے گل دانوں میں

شاخ سے کٹنے کا غم ان کو بہت تھا لیکن
پھول مجبور تھے ہنستے رہے گل دانوں میں

ان کی پہچان کی قیمت تو ادا کرنی تھی
جانتا ہے کوئی اپنوں میں نہ بیگانوں میں

سر ہی ہم پھوڑنے جائیں تو کہاں جائیں گے
کھوکھلے کانچ کے بت ہیں ترے بت خانوں میں