کچھ ہیں منظر حال کے کچھ خواب مستقبل کے ہیں
یہ تمنا آنکھ کی ہے وہ تقاضے دل کے ہیں
ہم نے یہ نیرنگیاں بھی دہر کی دیکھیں کہ لوگ
دوست ہیں مقتول کے اور ہم نوا قاتل کے ہیں
عمر ساری راہ کے پتھر ہٹاتے کٹ گئی
زخم میرے ہاتھ میں اک سعئ لا حاصل کے ہیں
اک دھنک لہرا رہی ہے آنسوؤں کے درمیاں
میری آنکھوں میں ابھی تک رنگ اس محفل کے ہیں
اس سے آگے کون جائے دشت نامعلوم میں
ہم نہ کہتے تھے کہ سارے ہم سفر منزل کے ہیں
ان کو طوفانوں سے کیا مطلب بھنور سے کیا غرض
دوست جتنے ہیں تماشائی فقط ساحل کے ہیں
تو جسے اپنا سمجھتا ہے وہ مال غیر ہے
تیرے ہاتھوں میں جو سکے ہیں کسی سائل کے ہیں
جانچتی ہے غیر کو ہر لحظہ چشم عیب جو
نقش مجھ میں جتنے ہیں سارے کسی کامل کے ہیں
غزل
کچھ ہیں منظر حال کے کچھ خواب مستقبل کے ہیں
سلیم احمد